اسلامی یونی ورسٹی میں فیض وغالب کے عنوان سے سیمی نار کا انعقاد

 

بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ،اسلام آباد،شعبۂ اردو(خواتین) کے زیر اہتمام  ’’فیض و غالب سیمی نار‘‘کے عنوان سےفیض کے یوم پیدائش اور غالب کے یوم ِ وفات  کی مناسبت سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا،جس میں صدرِ شعبۂ اردو(خواتین)پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف اور شعبے کی تمام اساتذہ اور طالبات نے شرکت کی ۔

صدر محفل جناب افتخار عارف نے غالب کو ہر عہد کا بڑا شاعر قرار دیتے ہوئے   اور مذہبی شاعری کی اہمیت پر گفت گو کرتے ہوئے بتایا کہ مذہب  اور اس کے متعلقات کے حوالے سے  جس قدر  اشعار غالب نے کہے ہیں، اتنے کسی اور شاعر  کی شاعری میں دکھائی نہیں دیتے  ۔ فیض کی شاعری  میں بھی مذہبی رنگ ہونے کے ساتھ ساتھ  ان کی شخصیت پر بھی اس کا اثر تھا۔ آخر میں فیض کی معروف نظم ’’آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی‘‘  کے حوالے سے انھوں نے طلبہ کو بتایا کہ اس میں نسل نو کے لیے پیغام ہے

تقریب کی صدارت معروف شاعر، محقق  اور مفکر اور’’ ادارۂ فروغ قومی زبان ‘‘ کے سربراہ جناب افتخار عارف نے کی ،مہمانان خصوصی  معروف شعرا پروفیسر جلیل عالی اور جناب اختر عثمان تھے؛ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر سعدیہ طاہر اور ڈاکٹر عزیز ابن الحسن شامل تھے،جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شیراز فضل داد نے انجام دیے۔

تقریب کے آغاز میں ڈاکٹر نجیبہ عارف ،صدر شعبۂ اردو ،نے غالب اور فیض دونوں کے مقام و مرتبے پر روشنی ڈالی  اور انھیں اپنا تہذیبی سرمایہ قرار دیا۔ ڈاکٹر سعدیہ طاہر نے’’کلام فیض میں ایشیا کی بیداری ‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ڈاکٹر عزیز ابن الحسن نے غالب کو آخری بڑا کلا سیکی اور پہلا بڑا جدید شاعر قرار دیا اور’’فیض ِغالب‘‘کے عنوان سے فیض کی شاعری پر  غالب کے اثرات پر  گفت گوکی ۔جناب اختر عثمان نے ’غالب کی فارسی شاعری‘ کو اپنا موضوع بنایا۔پروفیسر جلیل عالی نے غالب کی شاعری کے جدید اور سائنٹیفک موضوعات پر بات کی اور  اقبال  اور فیض دونوں سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے فیض کی نظر میں اقبال کے مقام  کو موضوعِ بحث بنایا۔ ۔