افتخار عارف کے اعزاز میں خصوصی نشست

بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو (خواتین)  میں 3 دسمبر 2019 ،بروز منگل،علامہ اقبال آڈیٹوریم فیصل مسجد کیمپس میں معروف شاعر اور دانشور جناب افتخار عارف کے اعزاز میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔جس کی صدارت ڈین کلیہ زبان و ادب ،جناب ایاز افسر نے کی ۔ جس  میں صدور شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف ، ڈاکٹر عزیز ابن الحسن ،ڈاکٹر سعدیہ طاہر،ڈاکٹر بی بی امینہ  نے افتخار عارف کے فکر و فن کے حوالے سے اپنے مقالات پیش کیے۔دیگر شرکا میں اساتذہ شعبہ اردو اور طلبا و طالبات شامل تھے۔

ڈاکٹر بی بی امینہ نے “افتخار عارف کے خواب” کے عنوان سے اپنا  مقالہ پیش کیا۔جس میں انھوں نے افتخار عارف کی شاعری کے فنی محاسن بیان کرتے ہوئے استعارات کو بطور خاص موضوع بنایا ہے۔جن میں سب سے اہم استعارہ خواب کا ہے۔افتخار عارف کی شاعری خواب اور اس کے تلازمات سے پھوٹتی ہے لیکن ان خوابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ محض مایوس کن لمحات کے ترجمان نہیں ہیں بل کہ طاقت ،توانائی اور امید عطا کرتے ہیں ۔ یہ خواب مایوسی ،سماجی و عصری انتشار سے بچ نکلنے کی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں خواب کے اہم استعارے کو ان کی شاعری کی تہذیبی و ثقافتی روایت سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ان کےہاں خوابوں نے زندگی کی ہمہ گیری کو گرفت میں لیتے ہوئے معنویت کو کھونے نہیں دیا۔

ڈاکٹر سعدیہ طاہر نے افتخار عارف کی شاعری  کے حوالے سے اپنا مقالہ”افتخار عارف کی انسان دوستی کا دینی تناظر”کے عنوان سے پیش کیا۔جس میں افتخار عارف کی انسانی تہذیب سے وابستگی اور صوفیانہ اقدار و اصول کو بطور خاص موضوع بنایا گیا۔ ان کے حمدیہ اور نعتیہ اشعار میں محض عقیدت کا اظہار نہیں ملتا بل کہ یہ مکمل انسانی جذبات و کیفیات کا اظہار ہے ۔جس میں مشاہدے سے خالق تک پہنچنے کی سعی نظر آتی ہے۔افتخار عارف کی نعتیہ شاعری میں رسول اللہﷺ سے وابستگی ،معرفت اور تاریخ انسانی سے وابستگی محسوس کی جا سکتی ہے۔ان کی شاعری میں اہل بیعت سے والہانہ محبت کا اظہار بھی ملتا ہے۔جس میں خدیجۃالکبریٰ،فاطمۃ الزہرہ اور زینب کی مداح سرائی کی گئی ہے اور انھیں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سعدیہ کے مطابق افتخار عارف نے اپنی شاعری کو محض مذہبی موضوعات تک محدود نہیں کیا بل کہ یہ  انسان اور اس کے حالات و اقعات کی ترجمان بھی ہے۔

ڈاکٹر عزیز ابن الحسن نے “افتخار عارف کی شاعری کے فکری و فنی لوازمات “پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری میں نئے تجربات کی کشمکش نہیں ہے  بل کہ کلاسیکی روایت سے ہم آہنگی اور  بے ساختہ پن ہے۔ افتخار عارف کی شاعری اور شخصیت ایک دوسرے کا عکس ہے۔ان کے ہاں نعت اور منقبت ظاہری شخصی رویوں میں منعکس ہیں۔ان کی نعت میں  محض اظہار عقیدت نہیں ہے بل کہ زندگی کی پیچیدگیوں سے فیض رسانی نظر آتی ہے۔ افتخار عارف کے کلام میں شکایت زمانہ کی بجائے اپنے بڑوں سے تعلق جوڑنے کی تمنا نظر آتی ہے۔

افتخار عارف نے حاضرین سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے زمانہ طالبعلمی اور شعر گوئی کے آغاز کے متعلق تجربات کا اظہار نہایت عجز و انکساری سے کیا۔انھوں نے اپنے شعری سفر کی داستان انتہائی مختصر مگر جامع اور دلچسپ انداز میں بیان کی۔نیز ریڈیو ،ٹیلی وژن سمیت مختلف اداروں میں اپنی ملازمت کے احوال کا تذکرہ کیا۔طلبا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے مخالف سمت سے آنے والی تنقید کو برداشت کرنے کی ترغیب دی اور دوسرے کی بات سننے اور اس سے اپنی زندگی کا مقصد متعین کرنے کا درس دیا۔انھوں نے   فن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ  کام زیادہ یا تھوڑا ہونا ضروری نہیں ہے بل کہ کام کا معیاری ہونا ضروری ہے۔انھوں نے دنیاوی معاملات و معمولات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے  بے نیازی کی اہمیت کی وضاحت کی لیکن بے نیازی کے ساتھ ساتھ آدمی کی اپنی اہمیت  پر زور دیا۔افتخار عارف نے دوسرے کے نظری کو اہمیت دینے اور اپنے نظریے پر قائم رہنے کو اہمیت دی۔گفتگو کے دوران اپنے حلقہ احباب   اور خاص طور پرفیض احمد فیض سے اپنی عقیدت کا اظہار بھی کیا۔اپنی عملی زندگی میں فیض کے اہم کردار کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ فیض نے انھیں کہا کہ شاعری کے حوالے سے اگر کوئی کچھ کہے تو وضاحت نہ کرو بل کہ اس کے جواب میں کچھ تحریر کر دہ ،کام کرو ،غزل لکھو ۔۔۔محض لفظی وضاحت نہ دو۔گفتگو کے دوران افتخار صاحب نے اپنا کلام پڑھ کر سنایا ۔دوران گفتگو اپنی بیٹی  سے والہانہ محبت  اور جذباتی عقیدت اظہار کیا اور ان کے لیے لکھی گئی نظم”مالک میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا ۔۔۔”  اور بیٹے کے لیے لکھی گئی نظم “علی افتخار کی ماں سے میں نے بتا دیا ہے کہ اپنے بیٹے کو”پڑھی۔

آخر میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی نسل نے پاکستان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ۔انھوں نے اپنی نسل کے علما، دانشور اور سیاست دانوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے طلبا و طالبات سے پاکستان کے بہتر مستقبل کی امید لگائی۔

نشست کے صدر ڈین کلیہ زبان و ادب  پروفیسر ایاز افسر نے مقالہ نگاروں کے خیالات کا احاطہ کرتے ہوئے ۔ افتخار عارف کی شعری عظمت کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری میں فن اور زندگی کا توازن موجود ہے ۔انھوں نے اردو شاعری کو وسعت اور تنوع بخشا۔ ان کے مطابق افتخار عارف کی شاعری  “دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کے مصداق ہر خاص و عام پر اثر کرتی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے نشست کے اختتام پر  افتخار عارف  کی شخصیت اور کلام پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اور  نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کو سراہتے ہوئے ان کی شخصیت کو نئی نسل کے لیے پل کی مثال دی ۔جو نسل نو کو روایت سے آشنا  کر رہی ہے۔نجیبہ عارف کے مطابق افتخار عارف کے ہاں کلاسیکیت اور جدیدیت باہم مدغم ہیں اور طرز بیان کلاسیکی علائم و رموز سے سجا ہوا ہے جو ان کا خاصہ ہے۔